سوچ بدلئیے، پہلا قدم بڑھائیے اور زندگی کو جینا شروع کیجیے اور ان خیالات میں جدت لائیے جو کہ صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور وہ خیالات کیا ہیں؟مختصراً جائزہ لیجیے..
آئیے نگاہ دوڑائیے اپنے معاشرے کی طرف! جہاں عورت کو بچپن سے صرف زندہ رہنا (Survival) سکھایا جاتا ہے مگر زندگی کو جینا نہیں، عورت کو ہمیشہ خود کی قربانی کرنا سکھایا جاتا ہے کبھی عزت کی خاطر، کبھی کسی اور مقصد کی خاطر..اور عورت کی زندگی کا بنیادی مقصد اپنے خاندان کے مردوں کی خدمت و اطاعت میں مقید ہوتا ہے.. یعنی کہ ہمارے معاشرے میں، عورت کو اس کے انسانی وجود سے محروم کر کے محض علامت بنا دیا گیا ہے، اور اس سے ایک مکمل ذات بننے کا حق چھین لیا گیا ہے اور صدیوں سے ایسا ہی چلتا آرہا ہے، اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اس خیال لو ہر عورت کی تربیت میں شامل کر کے ، ہماری معاشرے میں کی جانے والی زیادہ تر شادیاں مذہبی فریضہ کی نسبت زیادہ اس فرسودہ خیال کے تحت کی جاتی ہیں مرد کے بغیر عورت کا بقا ممکن نہیں، عورت اپنے وجود کی بقا کے لیے مرد کی محتاج ہے اور شادی کو صرف ایک پناہگاہ کی حیثیت دے دی گئی ہے، اور عورت کی زندگی کا محور صرف شوہر کی خوشنودی، پیدائشِ اولاداور گھر گرہستی تک محدود کردیا گیا ہے، تاہم، آج کی خواتین جب اس روایتی سوچ سے انحراف کر کے اپنے اس مؤقف کا اظہار کرتی ہیں کہ "ہمیں ایک مکمل انسان کی حیثیت دی جائے، آزادانہ سوچ اور خودمختاری کا حق دیا جائے، شادی ہماری زندگی کا مقصد نہیں،بلکہ محض جزوِزندگی ہے اور ہم شادی صرف معاشی تحفظ کے لیے نہیں کریں گی بلکہ ہمارے مقاصد زندگی اس ازدواجی دائرے سے کہیں وسیع ہیں. " تو پدر شاہی معاشرہ اس سوچ کو شدید خطرے اور چیلنج سے دوچار نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ جب عورت اپنے مالی تحفظ اور اپنے انتخاب کی ذمہ داری خود لے گی تو مرد کی غلامی کون کرے گا! وہ تو مالی کنٹرول سے انکار کر دےگی اور اپنے انتخاب(تعلیم کا حصول، شادی کرے یا نہ کرے اور اولاد پیدا کرے یا نہ کرے وغیرہ ) کو قدر دلوائے گی،
اور دوسروں کے انتخاب کا انکار کر کے پدر شاہی کے مؤثر سماجی کنٹرول کے ہتھیار کو بے اثر کر دے گی ۔ اسی لیے خواتین کو اُس نئے انتخاب پر شرمندہ کیا جاتا ہے اور ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ غلامانہ سوچ کی قیدی ہوکر رہیں اور گھٹن زدہ ماحول کو بھی ایک نعمت خداوندی سمجھ کر قبول کریں۔ اور معاشرتی جیل کی قیدی بنی رہیں...
ایک اور خیال جو کہ ہمارے معاشرے کے اکثریت کی سوچ کا خاصہ ہے وہ یہ کہ وہ عورت کا احترام و تکریم، اسکے انسان ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ کسی خونی رشتے کی بنا پر کرتے ہیں .. جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کی عزت اسکے انسان ہونے کی وجہ سے کی جائے.. اور انسان صرف کہنے کی حد تک نہیں، بلکہ اسکو انسان کی حیثیت سے قبول کیا جائے اور انسانیت کا ثبوت اسکو بنیادی حقوق کی فراہمی سے دیا جائے....
آخر کو ہم سب بھی تو کسی عورت کے ہی وجود کا حصہ ہیں جس نے اپنی ذات کی ندی کر کے ہمارے وجود کو جان بخشی!! تو ہم سب کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا عورت کو اپنی زندگی گزارنے کا طریقہ چننے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے! اور عورت کو غلامی کی ان زنجیروں سے نکالنے کے لیے ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اور کیا کررہے ہیں یا اب تک کیا کیا ہم نے؟ کیا عورت کو اپنے ذاتی فیصلے کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے؟ اور اگر حق ہونا چاہیے تو ہم اس حق کو دلوانے کیلئے کیا کردار ادا کررہے ہیں اور آئندہ کیا کردار ادا کریں گے ؟


