ہم"ہم" کیوں ہیں ؟ ہمارے وجود کا کوئی مقصد بھی ہے یانہیں؟
ہم"ہم" کیوں ہیں ؟ ہمارے وجود کا کوئی مقصد بھی ہے یانہیں؟
ہم میں سے ہر کوئی، چاہے وہ مانے یا نہ مانے، یہ ضرور کبھی نہ کبھی تو سوچتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے اور میرا وجود کیوں ہے؟
تو اس بارے دین اسلام یہ کہتا ہے کہ آپ ایک مقصد کے تحت تخلیق ہوئے ہیں، جبکہ عموماً فلسفیوں کے نزدیک "وجود سے پہلے کوئی معنی نہیں، آپ کو اپنا معنی خود تخلیق کرنا ہوگا" اور وہیں پر سائنس آپ کو محض ایک کیمیائی اتفاق قرار دیتی ہے۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ ساری کائنات بس اک اندھا حادثہ ہے اور ہمارے ہونے کے پیچھے کوئی سوچ و مقصد نہیں، تو کیا پھر ہماری ہر کوشش بیکار نہیں؟
اور یہ سوچ ہمیں عدم مقصدیت یعنی(nihilism ) کی طرف لے جاتی ہے، یہ وہ فلسفہ ہے جو یہ مانتا ہے کہ وجود بے معنی ہے، علم ناممکن ہے اور تمام اخلاقی اقدار بے بنیاد ہیں۔ بہت سے مفکرین اسی عدم مقصدیت کو آزادی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی خالق نہیں، تو کوئی اصول اور حدود بھی نہیں۔
لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا کہ یہ آزادی کتنی بھیانک ہے؟ اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ کائنات ایک بے مقصد غلطی ہے، تو اس لحاظ سے تو ہر چیز جائز (Permissible) ہو جاتی ہے۔ چونکہ نہ کوئی ابدی اخلاقی پیمانہ باقی رہتا ہے اور نہ نیکی و بدی میں کوئی حقیقی فرق، یوں تو ہماری عظیم ترین کامیابیاں، محبتیں، اور تکالیف محض عارضی کیمیائی فریب ہی نہیں بن جاتیں؟
اگر وجود بے مقصد ہے، تو پھر انسان خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ہونے کے معنی کو ہی قتل کر دیتاہے! پھر تو یہ نام نہاد آزادی، بے مقصد زندگی کا وہ ناقابل برداشت بوجھ بن جاتی ہے جس کا کوئی انجام نہیں۔ تو کیا آپ اس بے انجام بوجھ کے تحت جینا چاہتے ہیں!
یہاں ایک اور سوال ابھرتا ہے کہ اگر ہم محض کیمیائی اتفاق ہیں، تو ہمارا اخلاقی نظام کہاں سے آیا؟ اس لحاظ سے تو ہمیں صرف اپنی بقا اور خودغرضی کی جنگ لڑنی چاہیے تھی مگر پھر کیوں ہم فطری طور پر ایک بھوکے شخص کو کھانا کھلانا یا ایک مظلوم کے حق میں کھڑا ہونا ضروری سمجھتے ہیں؟
یہ باطنی رہنما جسے ہم ضمیر بھی کہتے ہیں جو کہ ہمیں انصاف کی طرف کھینچتا ہے تو یہ کس عظیم ارادے کا ثبوت ہے؟
تو یہاں پھر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہماری یہ دوہری فطرت نیکی اور بدی دونوں کا رجحان، کیمیائی طور پر درست ہے، کیونکہ یہ ارتقاء... اجتماعی بقا یا باہمی ایثار (Reciprocal Altruism) کے لیے ضروری ہے۔ لیکن یہ وضاحت بھی ناکافی ہے چونکہ اگر ہماری نیکی محض بقا کا ایک کیمیائی عمل ہوتی، تو جب کوئی شخص اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایسے اجنبی کو بچاتا ہے جس سے اسے بقا کا کوئی "باہمی" فائدہ نہیں ہو سکتا تو یہ عمل پھر بقا کے اصول کے تحت بے وقوفی کیوں نہیں کہلاتا؟
اور کیمیا آپ کو یہ تو بتا سکتی ہے کہ آپکے دماغ میں کیا ہو رہا ہے مگر یہ کبھی نہیں بتا سکتی کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں!!
جبکہ ہمارا وجود تو اسی اخلاقی کشمکش کا میدان ہے۔ یہ جنگِ خیر و شر ثابت کرتی ہے کہ ہمیں انتخاب کی آزادی دی گئی ہے۔ اگر خالق کا مقصد ہمیں صرف روبوٹ بنانا ہوتا تو وہ ہمیں صرف نیکی کی جبلت دیتا۔ مگر برائی کا میلان دے کر، اُس نے دراصل ہمارے انتخاب کی قدر کو ایک مقام دیا ہے۔ اور ہماری نیکی کی قیمت بھی اسی لیے ہے کہ ہمارے پاس برائی کا بھی مکمل اختیار موجود ہونے کے باوجود ہم نے نیکی اختیار کی۔ اور یہ بوجھ اس لیے دیا گیا تاکہ ہم آزادانہ طور پر ذمہ داری قبول کر سکیں اور اپنی خودی کو پختہ کر سکیں۔
بالآخر ہمیں ایک انتخاب تو کرنا پڑے گا یا تو ہم Nihilism کو قبول کر کے یہ مان لیں کہ یہ کائنات ایک بے مقصد غلطی ہے اور ہماری اخلاقی کشمکش بھی محض بے معنی کیمیائی الجھن ہے، یا پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس لا متناہی ڈیزائن و کاریگری کے پیچھے ایک گہرا ارادہ موجود ہے۔ ایک ایسا ارادہ جس نے ہر چیز کو ایک مقصد کے ساتھ تخلیق کیا اور ہمیں اخلاقی کشمکش کا میدان بنا کر ہماری آزادی کو یقینی بنایا۔ جب ہم اس ارادے کو تسلیم کرتے ہیں، تو ہمارا وجود ایک حادثہ نہیں رہتا بلکہ ایک ذمہ داری بن جاتا ہے۔اور یہ ذمہ داری ہی ہمیں اصل آزادی دیتی ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ کیا آپ اس بے مقصدیت میں جینا چاہتے ہیں، یا آپ میں اتنی جرأت ہے کہ آپ اپنے فکری جمود کو توڑ کر، اس عظیم ذمہ داری کو قبول کریں جس کے لیے آپ تخلیق کیے گئے ہیں؟
