یہ غلط فہمی اصل میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کی ان تحریروں کا نتیجہ ہے جو انگریز مؤرخین نے برصغیر کے بارے میں تحریر کیں۔ ان تحاریر میں صوفیا کا بیان جب باقی دنیا کو پتہ لگا تو وہ انہیں کرسچن مشنریز کا مسلمان متبادل سمجھے جبکہ درحقیقت ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ صوفیا بنیادی طور پر ایک متوازی مسلک کے نقیب تھے جو عربی اسلام کو ہندوستانی ثقافتی پس منظر کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا تھا۔ ان صوفیا میں نہ کوئی تبلیغی تھا نہ ہی ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کی روایت موجود تھی۔
برصغیر میں اسلام وسط ایشیا، ایران اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے فاتحین کی لشکر کشی اور فوجی کامیابیوں کا نتیجہ تھا۔ اس کا صوفیا کے “ اخلاق” سے کوئی دور دور کا تعلق نہیں تھا۔ اس دوران استحصال سے بچنے کے لیے نچلی سمجھی جانے والی ہندو ذاتوں سے بھی بہت تیزی سے کنورژن ہوئی ۔ کنورٹ ہونے والوں کی اکثریت نے ایک خودحفاطتی میکینزم کے تحت اسلام میں اعلیٰ سمجھے جانے والی ذاتوں کا ٹھپا لگوانے کی حکمت عملی اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں سادات کی تعداد مبالغہ آمیز حد سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔


