خدارا، بلاوجہ طلاق مت دیجیے. آپ کے ایک قول کی بدولت اگلے شخص کی ساری زندگی برباد ہو جاتی ہے. عورت کے ماتھے پر "مطلقہ" کا ایسا تمغہ سج جاتا ہے جو آب زم زم سے دھلنے کے بعد بھی صاف نہیں ہوتا. یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ طلاق دینے والے مرد پر یہ داغ کیوں نہیں لگتا؟ جیسے عورت کو مطلقہ کہا جاتا ہے، ایسے القاب سے مردوں کو کیوں نہیں پکارا جاتا؟ ہمارا معاشرہ ایسا دوہرے معیار کا حامل کیوں ہے؟
یہ حق بجا بات ہے کہ شریعت نے طلاق کا حق مرد کو اور خلع کا حق عورت کو دیا ہے.
نہ ہی ہر طلاق اور علیحدگی کا قصوروار مرد ہے اور نہ ہی ہر جگہ پر عورت مظلوم ہے بلکہ دور حاضر میں دونوں ہی اس حق کو ذرا سی بات پر انا کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں. بعض اوقات عورت گھر بسانے کے لیے آخری حد تک بھی جاتی ہے مگر مرد تیار نہیں ہوتا، اور بعض اوقات عورت ہی صبر کا دامن چھوڑ کر علیحدگی کا مطالبہ کر دیتی ہے.
یہ غیر ذمہ دارانہ رویے اس رشتے کے تقدس کی خلاف ورزی ہیں۔ لہٰذا، دونوں فریقین کو چاہیے کہ کوئی بھی فیصلہ فکر و تدبر سے لیں۔
لیکن، اگر غور و فکر کے بعد طلاق و خلع کا فیصلہ ہو جائے اور بچے بھی ہوں، تو پھر کیا؟
اس صورت میں مرد کو تو دوسری بیوی مل ہی جاتی ہے اور عورت کو بھی بالآخر شوہر مل ہی جاتا ہے، لیکن بچے؟
اصل زندگی توان بچوں کی برباد ہوتی ہے. ان کا مقدر ساری زندگی محرومیوں سے اور سماجی تفریق سے لڑتے رہنا بن جاتا ہے.
ایسے بچے ماں یا باپ یا دونوں کی ہی محبت سے محروم ہو کر تقسیم ہو جاتے ہیں، اور وہ سماج میں خود کو بے داغ ثابت کرتے رہنے کی ایک لامتناہی جنگ لڑتے ہیں، اور اس کا ذمہ دار کون ہے! ہمارا معاشرہ، والدین یا کچھ اور!
خدارا، یا تو آپ بچے ہی مت پیدا کیجیئے، اور اگر پیدا کر لیے ہیں تو ایسے فیصلے سوچ سمجھ کر کیجئے، کیونکہ مرد و عورت کی زندگی تو برباد ہوتی ہے جو سو ہوتی ہے، مگر وہ اولاد اس کا خمیازہ ساری زندگی بھگتتی ہے.
طلاق کو آخری حربے کے طور پر استعمال کریں، انا، غصے اور جذبات کی بنیاد پر نہیں.
آپ سب آنے والے وقت کے ماں اور باپ ہیں، لہٰذا اپنی زندگی کے ایسے فیصلے سوچ سمجھ کر کیجیئے۔ یاد رکھیں، رشتوں کا تقدس ہماری آئندہ نسلوں کی مضبوط بنیادہے. اور آپکا ایک فیصلہ آئندہ نسلوں کی زندگی بدل سکتا ہے.

