تحریر: ڈاکٹر سہیل زبیری
نومبر 2، 2025
کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں ایک تعلیمی انقلاب لا یا جا سکے، ایسا انقلاب جس میں ملک کے ہر بچے کو ایسی تعلیم سے آراستہ کیا جائے جو اس وقت صرف بالائی طبقات سے وابستہ بچوں کو میسر ہے؟
یہ اس مضمون کا موضوع ہے۔
اس موضوع پر میں پہلے بھی اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں اور اس مضمون میں ماضی میں لکھے گئے اپنے مضامین سے استفادہ بھی کروں گا۔
اس مضمون کا مقصد ان بنیادی مسائل کا جائزہ لینا نہیں جن کا ہماری سوسائٹی کو سامنا ہے اور جو ایک تعلیمی انقلاب کی راہ میں مانع ہیں۔ اسی طرح اس مضمون میں ایک جامع تعلیمی پالیسی کے خد و خال پر اپنی رائے دینے سے بھی احتراز کروں گا۔ اس کے لیے اگلا مضمون مختص کروں گا۔
اس مضمون میں تو ایک ایسا طریقہ کار تجویز کرنا ہے جس کے ذریعے بہت کم مدت میں اور بہت معمولی وسائل کے ساتھ ملک کے ہر بچے کو اسکول کی سطح پر کوالٹی تعلیم میسر ہو سکے۔ یہ ایک تعلیمی انقلاب کی طرف پہلا مگر بہت اہم قدم ہو گا۔
بظاہر تو یہ ناممکن نظر آتا ہے، لیکن اس مضمون کے ذریعے یہ واضح کرنا ہے، کہ ایسا یقینی طور پر ممکن ہے بشرطیکہ ملک اور معاشرہ اس کے لیے یکسو ہوجائیں۔
یہاں میرا زور ان اقدامات پر ہو گا جو فوری طور پر ملکی وسائل کی بنیاد پر لینا ممکن ہے اور جن سے ہمارے اور ترقی یافتہ ممالک کے مابین فرق میں واضح تبدیلی لائی جا سکے۔ ان تجاویز کا محور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب ہے جو ہماری زندگی میں وقوع ہونے والا سب سے اہم واقعہ ہے۔ یہ انقلاب ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے رُونما ہُوا۔
تعلیمی شعبے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ سوال اہم رہا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔ ایسا کیونکر ممکن ہو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کی بدولت ہر سطح کے طلباء، خاص طور پر اسکول کے طلبا، کا نہ صرف علمی معیار بلند ہو بلکہ ایک سائنسی ماحول بنے جو رفتہ رفتہ پاکستان میں ایک سائنسی کلچر کے فروغ کا باعث بنے۔
جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں ذکر کیا، میرے نزدیک پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ملک کے ہر بچے کو پہلی جماعت سے میٹرک تک وہ تعلیم فراہم کرنا ہے جو آج صرف اشرافیہ کی اولاد کو میسر ہے۔
اس مضمون میں میں کچھ ایسی تجاویز پر بات کروں گا جن پر عملدرآمد سے پاکستانی بچے محدود وسائل کے ساتھ بہترین تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے کہ میں یہ تجاویز پیش کروں، مناسب ہو گا کہ اس راہ میں موجود گھمبیر مسائل پر روشنی ڈالی جائے۔
سب سے پہلا مسئلہ پاکستان میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے۔ سکولوں اور کالجوں کی اتنی کمی ہے کہ سکول اور طلباء کی تعداد کا تناسب خطر ناک حد تک نیچے ہے۔ لہٰذا سب سے ضروری اور سب سے اہم کام تو یہ ہے کہ پہلے تو مزید سکول اور کالج بنائے جائیں۔ جہاں کم سے کم پہلی جماعت سے میٹرک تک، تعلیم مُفت اور لازمی ہو۔ لیکن اس کے لیے بہت بڑے وسائل درکار ہیں۔
دوسرا مسئلہ اساتذہ کا معیار ہے۔ عمارات میسر آ جانے کے باوجود اگر استاد قابل نہیں تو پھر بھی تعلیم کا معیار بلند نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ایک بڑے فیصلے کی ضرورت ہے۔ پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک کے طلباء کو پڑھانے کے لئے تعلیم یافتہ، ہنر مند اور قابل اساتذہ کی ضرورت ہے۔ کُل آبادی کے لئے اس معاشرے سے پہلی جماعت سے میٹرک تک کے طلباء کے لئے، اتنی بڑی تعداد میں ایک مختصر مدت میں قابل اور تجربہ کار اساتذہ پیدا کرنا، جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔
اگلا مسئلہ تعلیمی نصاب کا ہے۔ ہمیں تمام جماعتوں کے لئے تمام مضامین پڑھانے کے لئے اعلٰی درجے کا نصاب چاہیے۔ اس وقت نصابی کُتب ہر صوبے کے متعلقہ ٹیکسٹ بُک بورڈ کی زیرِ نگرانی لکھی جا رہی ہیں۔ عمومی طور پر یہ کُتب جو عام گورنمنٹ سکول کے طلباء کو میسر ہیں، اعلٰی معیار کی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کُتب ”او۔ لیول“ اور ”اے۔ لیول“ میں پڑھائی جانے والی کُتب کے مقابلے میں نہایت کم تر سطح پر ہیں۔ یہ ایک اور وجہ ہے جس سے ایک عام آدمی کے گورنمنٹ سکول میں پڑھنے والے اور اشرافیہ اور فیصلہ سازوں کے مخصوص اور مہنگے سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی علمی استعداد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور اس سے ایک معاشرتی تفاوت بھی پیدا ہو چکی ہے۔
کسی بھی تعلیمی پالیسی، چاہے وہ مختصر مدت کے لیے ہو یا ایک طویل مدت کا منصوبہ ہو، ان تین مسائل سے نبرد آزما ہوتا ضروری ہے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ ہماری تعلیمی پالیسی کے مقاصد کیا ہوں؟
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ تعلیم کو ہر فرد کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔ اس وقت پاکستان میں شرح خواندگی دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خطرناک حد تک کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے ہر بچے کو اعلی کوالٹی کی تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ کسی بھی سیاسی مفاد سے بالاتر ایک قومی مقصد کا اعلان کیا جائے کہ جلد سے جلد، دو تین سالوں میں، یہ ٹارگٹ حاصل کیا جائے گا۔
ہماری تعلیمی پالیسی کی منزل یہ ہونی چاہیے کہ ایسے ذہن پیدا کریں جو شعور اور آزادی سے سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہماری آنے والی نسل ایسے طلباء پر مشتمل ہو جو جدید علم سے آراستہ، تخلیقی صلاحیتوں سے مزین، فیصلہ سازی اور لیڈرشپ کی صلاحیتوں سے لبریز، کسی بھی خوشحال اور ترقی یافتہ ملک کے طلباء کے ہم پلہ ہوں۔
اب اتنے بڑے بڑے مقاصد پر کام کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے کیسے مستفید ہُوا جائے؟ یہ کُچھ تجاویز ہیں جو یقیناً میرے علاوہ اور لوگ بھی سوچتے ہوں گے ۔
ہماری تعلیمی پالیسی کا بنیادی نقطہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم پہیے کو دوبارہ سے ایجاد کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مثال کے طور پر اوسط درجے کی نصابی کُتب بار بار لکھنے کی بجائے پہلے سے لکھی ہوئی وہ کتابیں اسکول کے نصابوں میں شامل کر لیں جو کامیاب تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ مثلاً، اشرافیہ کے لئے مختص تعلیمی ادارے جہاں پر ’او۔ لیول‘ اور ’اے۔ لیول‘ کا نصاب نافذ ہے، انھوں نے بہترین کتب اپنا رکھی ہیں۔ ان کتابوں کا معیار بین الاقوامی ہے۔ ایک گاؤں میں بیٹھا کسان کا بیٹا اس معیارِ تعلیم سے محروم کیوں رہے جو اس بچے کو حاصل ہے جو پالیسی ساز کا بچہ ہے؟ ضروری بات تو یہ ہے کہ ان کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے جائیں جو ہر طالب علم کی دسترس میں ہوں۔ اسکول میں مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت پر بات اگلے مضمون میں ہو گی۔
اب رہا اساتذہ کا مسئلہ۔ یہاں پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بہرہ مند ہوا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک تجویز پیش کرتا ہوں جس سے اساتذہ کا مسئلہ وقتی طور ہر حل کرنا ممکن ہو گا۔ سب سے پہلے تو ایسے اساتذہ کی ٹیم تیار کی جائے، جو پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک اپنے اپنے مضامین کے بہترین اساتذہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح کے تسلیم شدہ اساتذہ کو شامل کیا جائے اور ان کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ کلاس اول سے دہم تک ہر مضمون کے لیکچرز کی انتہائی اعلی کوالٹی کی وڈیوز تیار کریں۔ یہ وڈیوز ہر مضمون کی ٹیکسٹ بک سے مسابقت رکھتی ہوں۔ اگر یہ کام تسلی بخش انداز میں ہو جائے تو یہ ایک بہت ہی بڑا قدم ہو گا۔ سارے منصوبے کی اہم ترین کڑی یہ ہے کہ یہ سارے لیکچرز اعلی ترین سٹینڈرڈ کے ہوں۔ اس معاملے میں کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں۔
اگلا قدم یہ ہو گا کہ ان وڈیوز کے ذریعے ٹیلیویژن پر روزانہ کی بنیاد پر ہر کلاس کے لیکچرز کا اہتمام کیا جائے جو ملک کے کونے کونے میں ٹیلی کاسٹ ہوں۔ اس طور اصولی طور پر ملک کے بچے بچے کو اعلی تعلیم کے مواقع میسر آ جائیں گے۔ اس طور دُور دراز علاقوں میں موجود اُن سکولوں میں اچھی تعلیم کا انتظام ہو سکتا ہے جہاں عام طور پر یہ ممکن نہیں سمجھا جاتا۔ ان سکولوں میں اب استاد کا یہ کام ہو گا کہ ٹیلیوژن کے ذریعے لیکچرز کے دوران طلباء کو متوجہ رکھ سکیں اور ان کے سوالوں کا جواب دیے جا سکیں۔ لیکچرز کی وڈیوز اساتذہ اور طلبا کو یو ٹیوب یا کسی اور طریقے سے فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنے فارغ اوقات میں ان سے استفادہ کر سکیں۔
سب سے مشکل کام یہ ہے کہ کم سے کم وقت اور نہایت کم بجٹ میں تمام بچوں کے لئے سکول کیسے بنائے جائیں۔ اس کے لئے کسی نہ کسی طرح پہلے سے موجود عمارات استعمال کی جا سکتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ تجاویز ہیں۔ پہلی بات وہی ہے جس کا نصف صدی سے پرچار ہے۔ اور وہ ہے مساجد کو تعلیم کے حصول کے لئے استعمال کرنا۔ یہ استعمال فجر کی نماز کے بعد اور ظہر کی نماز سے قبل تک ہو۔ عبادت کی جگہ کو علم کے حصول کے لئے استعمال کرنے سے بڑھ کر اور نیک کام کیا ہو گا۔
دوسری تجویز پر عمل درآمد کے لئے پورے مُلک کے خوشحال حضرات سے تعاون کی ضرورت ہے۔ تمام دیہات اور قصبات کے لوگوں سے التماس کیا جائے کہ وہ اپنے گھر کے ایک یا دو کمرے صبح سے سہ پہر تک تعلیم کے لئے مختص کر دیں۔ ان کمروں میں ٹیلیوژن کے ذریعے لیکچرز کا بندوبست کیا جائے۔ انہی دیہات یا قصبوں میں تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیوں کو استاد کے طور پر بھرتی کیا جائے۔ بہت سے مخیر افراد اس قسم کے اسکول انتہائی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملکی سطح پر اس کام کا بیڑا اٹھائے۔
یہ تو ایک ابتدائی سوچ ہے اور صرف خد و خال بیان کیے گئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام تجاویز قابل عمل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سطح پران سوچوں کو عملی شکل دینے کے لیے منصوبہ سازی کی جائے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ ایسے منصوبے کو تعلیمی پالیسی کا حصہ کیسے بنایا جائے؟ ایسی غیر روایتی باتوں کی مختلف حلقوں سے مزاحمت ہونا ایک لازمی امر ہے۔ اس مضمون میں کئی دیگر مسائل کا احاطہ یہاں نہیں کیا جا سکا مثلاً امتحانات کا نظام کیسا ہو۔ ان پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ ان تجاویز پر عمل پیرا ہو کر کم خرچے سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن یہ صرف ایک عارضی حل سمجھا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پروگرام کے ساتھ ایک ایسا ملک گیر پروگرام بھی لانچ کیا جائے جس کا مقصد ایک محدود مدت میں لاکھوں کی تعداد میں ہر سطح کے اساتذہ کی ٹریننگ اور ملک کے چپے چپے میں اسکولوں کا جال بچھانا ہو۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ان تجاویز پر عمل کرنے کے لیے فوری طور پر بین الاقوامی سطح کے تعلیم اور آئی ٹی کے ماہرین پر مشتمل ایک جماعت تشکیل دے جس کی یہ ذمے داری ہو کہ کلاس اول سے کلاس دہم تک ہر مضمون کی اعلی ترین معیار کی ویڈیوز تیار کی جائیں۔ یہ وڈیوز ایسی ہوں جو کسی بھی بچے میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا کر سکیں، اور ان کو جدید تعلیم سے بہرہ ور کر سکیں۔ جیسے ہی یہ وڈیوز مکمل ہوں، پورے ملک میں ہر بچے تک ان وڈیوز اور ان سے وابستہ نصابی کتابیں پہنچانے اور تعلیم کا حصہ بنانے کا پروگرام ترتیب دیا جائے۔
اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ حکومت پر چھوڑنے کی بجائے کوئی متعلقہ ادارہ اس ذمہ داری کو نبھائے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان اکیڈمی آف سائنسز، جس سے ملک کے ممتاز ترین ماہر تعلیم وابستہ ہیں، ان تجاویز کا گہری نظر سے جائزہ لیں اور اگر ان کو مناسب تصور کریں تو ایک کمیٹی قائم کریں جو کلاس اول سے دہم کی ویڈیوز کی تیاری کی نگرانی کریں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کام اتنا مشکل نہ ہو۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ایسے پروگرام اور کورسز کی ویڈیوز موجود ہوں۔
بس ان کو اردو زبان میں اور پاکستانی پس منظر میں ڈھالنا اور کاپی رائٹس جیسے مسائل کو حل کرنا ہو۔ اس کے لئے حکومت سے ایک خطیر رقم کی گرانٹ کی ضرورت ہو گی۔ اگر پاکستان اکیڈمی آف سائنسز دلچسپی لے کر ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ اس بنیاد پر ملک کے ہر بچے تک آئندہ دو تین سالوں میں علم کی روشنی پہنچائے۔
ایک تعلیمی انقلاب کی طرف یہ پہلا مگر بہت جاندار قدم ہو گا۔
ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔


