۲۷ ویں ترمیم اور ہماری بربادی
از قلم: طوبیٰ طاہر
تم سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشین تھا،
اس کو بھی اپنے خُدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا۔
آج جب ۲۷ویں ترمیم کی خبر سنی تو ذہن میں ایک سوال نے ایک مرتبہ پھر مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا ہمارے ملک میں کوئی انقلاب نہیں آسکتا؟
کیا ہمارا سیاسی شعور، جو ایک قوم کی پہچان ہوتا ہے اور اُس قوم کی اقدار کو زندہ رکھتا ہے، بالکل ناپید ہو چکا ہے؟
کیا اس ملک نے جن نظریات پر اپنی آزادی حاصل کی تھی وہ سب ختم ہو چکے ہیں؟
کیا یہ ملک اور اس کے تمام ادارے ایک hybrid regime کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکے ہیں؟
۲۷ویں آئینی ترمیم کو جو گھناونے کھیل کی آڑ میں ملک کے ساتھ کھیلا گیا ہے، اُس کے بعد ایک عام آدمی کو کیا تحفظ حاصل ہے؟
اب جب ہماری عدلیہ اس قدر compromised ہو چکی ہے تو سوال یہ ہے کہ عام آدمی انصاف لینے کہاں جائے گا؟
اب تو ظلِ الٰہی صرف اور صرف اللہ کو جوابدہ ہیں —
زمین والوں کے لیے اب کوئی پناہ باقی نہیں رہی۔
ایک ایسا ملک جس میں اس ترمیم سے پہلے ہی ملزمان کو ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے،
اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کا "سافٹ ویئر" اپ ڈیٹ کر دیا جاتا ہے،
جہاں ایک شخص کے تحفظ کے لیے اداروں کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے،
وہاں اب مزید کیا دیکھنا باقی رہ گیا ہے؟
حکمران اتحاد کو حکومت میں آئے تقریباً ڈیڑھ یا دو سال کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے،
اس عرصے میں کوئی ایسا بل یا ترمیم پیش نہیں کی گئی جس میں ایک عام شہری کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہو۔
ہمیں اس قدر علاقائیت، لسانیت، فرقہ واریت، ذات اور مذہب میں الجھا دیا گیا ہے کہ اب ہم ایک دوسرے پر ہونے والے ظلم پر بھی آواز بلند نہیں کرتے —
تو پھر ہم ایک ساتھ مل کر انقلاب کیسے لا سکتے ہیں؟
یہ ملک جب سے بنا ہے تب سے اس پر بلاواسطہ یا بالواسطہ فوج کی حکمرانی رہی ہے۔
کل عمران کو جنرل باجوہ ایک savior لگتا تھا،
آج شہباز کو جنرل منیر اپنا savior لگتا ہے۔
تو بات صرف اتنی سی ہے کہ چہرے بدلتے ہیں، کہانی وہی رہتی ہے —
کیونکہ آج تک ہمارا کہانی ساز ایک ہی ہے۔
تو پھر اس بےبسی پر فیض کا وہ شعر یاد آتا ہے:
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں رُوئی کی طرح اُڑ جائیں گے
جب تاج اُچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

