میرا جسم میری مرضی یا اپنا کھانا خود گرم کرو — یہ ایسے نعرے ہیں جنہیں سن کر کسی کا بھی خون کھول سکتا ہے۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔
2017 میں جب عورت مارچ شروع ہوا تو اس کا پس منظر یہ تھا کہ اس عورت مارچ سے کچھ مہینے پہلے ایک شوہر نے اپنی بیوی کو صرف اس لیے قتل کر دیا کہ بیوی نے اس کا کھانا صحیح سے گرم نہیں کیا تھا۔ پھر اسی طرح رمضان کے بابرکت مہینے میں ایک اور شخص نے اپنی بیوی کو اس لیے قتل کر دیا کہ سحری بنانے میں معمولی سی کمی رہ گئی تھی، اور اس نے سمجھا کہ بیوی کو قتل کر کے ثواب کمالے گا۔
اب جب عورتیں ایسے ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نعرے اور کارڈز اٹھا کر باہر نکلیں تو ان کی کردار کشی شروع کر دی گئی۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ صبر کی تلقین صرف عورتوں کو ہی کیوں کرتا ہے؟
اگر ذرا سا صبر مردوں کو بھی سکھا دیا جائے تو یہ معاشرہ جنت بن جائے۔
اب اگر کچھ لوگ اس بات کو اسلام کے خلاف رنگ دینے کی کوشش کریں تو ان سے میری گزارش ہے کہ ذرا اسلام کو صحیح معنوں میں پڑھیں۔
اسلام میں عورت سے کھانا گرم کرنے یا شوہر اور سسرالی رشتوں کی خدمت کرنے کی کوئی لازمی شرط نہیں رکھی گئی۔
ہاں، اسلام نے صلہ رحمی اور احسان پر بہت زور دیا ہے — اور یاد رکھیں، صلہ رحمی اور احسان دونوں طرف سے باہمی ہوتے ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ اسلام نے تو عورتوں کو چودہ سو سال پہلے ہی حقوق دے دیے تھے، تو یہ عورتیں اب کون سے حقوق لینے نکلی ہیں؟
تو بات یہ ہے کہ ہماری زمینی حقیقتیں بالکل مختلف ہیں، ہمارا معاشرتی ذہن بالکل بدل چکا ہے۔
اسلام میں کہیں بھی عورت پر یہ لازم نہیں کیا گیا کہ وہ شوہر کے لیے کھانا بنائے یا گھر کی صفائی کرے، بلکہ تمام مکاتبِ فکر کے علما نے اس معاملے میں "احسان" کا لفظ استعمال کیا ہے — یعنی یہ عورت کا فرض نہیں بلکہ نیکی اور محبت کا عمل ہے۔
اسلام نے عورت کو ان گھریلو ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔
اگر ہماری عورتوں کو ان کے حقوق ایمانداری سے بتا دیے جائیں، اور مردوں کو ان حقوق کو ادا کرنے کا پابند کر دیا جائے، تو شاید ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔
ہم آج یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں شادی کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں عورتوں کو اپنے حقوق کا بخوبی علم ہے اور مرد بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں۔
اسی لیے یورپ اور مغربی ممالک میں شادی کو زیادہ ترجیح نہیں دی جا رہی۔
یہاں بات صرف اور صرف آگاہی (Awareness) کی ہے۔
اگر ہمارے علما چار شادیوں کے فضائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کو یہ سمجھا دیں کہ انہوں نے اپنی عورتوں سے پیش کس طرح آنا ہے، تو شاید ہمیں ایسے نعروں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اگر کوئی عورت اپنی بقا کے لیے بھی گھر سے باہر نکلے، تو اس پر طرح طرح کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں — اور یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ حقیقت کیا ہے۔
ہم اس قدر جہالت کے اندھیرے میں جی رہے ہیں کہ اگر کوئی اس نعرے کا ذکر بھی کرے، تو ہم بات کو اس کے اصل مفہوم سے ہٹا کر کسی اور رخ پر لے جاتے ہیں۔
از قلم: طوبیٰ طاہر

