”سمی میری وار، مین واری
کیا آپ نے اس قدیم لوک گیت کو سنا ہے اور کیا آپ اس کے پیچھے کی تاریخی کہانی جانتے ہیں تو چلیں آج آپ کو اس کے پیچھے کی کہانی سناتی ہوں۔
تو یہ کہانی ایک ایسے وقت کی ہے جب زمین اور درختوں سے رشتہ محض مادی نہیں بلکہ روحانی تھا۔ سال 1773ء کا ذکر ہے۔ جودھپور کے راجہ ابھے سنگھ نے ایک نیا محل تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ راجہ کی خواہش تھی کہ محل مضبوط اور شاندار ہو، اور اس کے لیے سب سے موزوں لکڑی جَند (سمی) کو سمجھا گیا۔ سپاہیوں کو حکم ملا کہ اُس پاس کے جنگلوں سے جَند کے درخت کاٹ کر لائے جائیں۔ وہ مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے ایک بڑے بھرے گاؤں کھجریلی تک پہنچے۔ یہ گاؤں اپنی سرسبزی کی وجہ سے مشہور تھا، لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ وہاں کے لوگ "بشنوئی" کہلاتے تھے۔ ایک ایسا قبیلہ جو فطرت کو اپنی عبادت سمجھتا تھا۔ ان کے لیے سبز درخت اور بے زبان جانور ایک امانت تھے۔ بشنوئی اصول کے مطابق کسی جانور کا شکار جائز نہ تھا اور نہ کسی درخت کو کاٹنے کی اجازت۔ یہی وجہ تھی کہ کھجریلی باقی خطے سے زیادہ سرسبز اور خوبصورت تھا۔
سپاہیوں نے جب گاؤں میں قدم رکھا تو ان کی نظریں بڑے بڑھے گھنے جَند کے درختوں پر جم گئیں۔ یہ درخت ہی وہ خزانہ تھے جس کی تلاش انہیں یہاں تک لائی تھی۔ وہ کلہاڑیاں نیز کر کے درختوں کے تنے کاٹنے ہی والے تھے کہ گاؤں کی ایک نیک عورت امرتا دیوی آگے بڑھیں۔ وہ ایک جامپروش بشنوئی تھیں۔“
عام عورت نہیں تھیں مگر ان کے ایمان اور عزم نے انہیں غیر معمولی بنا دیا۔ انہوں نے سپاہیوں کو للکارا کہ یہ درخت کاٹنے کی اجازت نہیں مل سکتی، یہ ہمارا ایمان ہے، ہمارا اصول ہے۔ سپاہیوں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہمیں محل کے حکم کی پرواہ ہے، تمہارے عقیدے کی نہیں۔ اس موقع پر امرتا دیوی کی آنکھوں میں بجلیاں کوندیں، وہ ایک درخت کے تنے سے لپٹ گئیں اور بولیں: “اگر درخت کاٹنا ہے تو پہلے مجھے کاٹو۔”
سپاہیوں کے پاس تلواریں تھیں، لیکن ان کے سامنے ایک بے سہارا عورت تھی۔ لمحہ بھر کے لیے وہ رُکے، لیکن پھر سنگدلی غالب آگئی۔ تلواریں چلیں، اور وہ درخت محفوظ رہا مگر امرتا دیوی کی جان چلی گئی۔ خون کا پہلا قطرہ زمین میں گرا تو جیسے فضا میں ایک طوفان مچ گیا۔ وہ منظر دیکھنے والوں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ مگر یہ قربانی محض آغاز تھی۔
ماں کے کٹے ہوئے جسم کو دیکھ کر اس کی تینوں بیٹیاں آسو، رتنی اور بھاگو بائی آگے بڑھیں۔ ان لبوں پر وہی گیت تھا جو آج بھی زندہ ہے، اُن کی زبان پر تھا:
“سمی میری وار، میں واری... مین واری آں نی سمی اے۔”
یعنی، “اے سمی! اب میری باری ہے، میں قربان ہوتی ہوں۔”
یہ گیت اب صرف گیت نہیں رہا تھا، یہ اعلان تھا، ایک چیلنج تھا کہ درختوں کے لیے جان دینا ہی اصل عبادت ہے۔ تینوں بیٹیوں اپنی ماں کی طرح درختوں سے لپٹ گئیں اور اپنی جانیں قربان کر دیں۔
ان کے خون سے بھیگی زمین کی خبر گاؤں سے نکل کر پورے علاقے میں پھیل گئی۔ لوگ در جوق اپنے درختوں سے لپٹنے لگے۔ مرد، عورتیں، بچے۔۔۔ سب اپنے جسم کو ڈھال بنا کر درختوں کو بچانے لگے۔ سپاہیوں کی تلواریں چلتی رہیں مگر مزاحمت کم نہ ہوئی۔ ہر کٹا ہوا جسم ایک نئے عزم کو جنم دیتا۔ یہ ایک عجیب منظر تھا، جیسے پوری بستی اپنے وجود سے جنگل کی حفاظت کر رہی ہو۔
جب تک یہ خبر راجہ ابھے سنگھ تک پہنچی اور اس نے مداخلت کر کے یہ خون رکوایا، تب تک 363 بشنوئی اپنی جانیں قربان کر چکے تھے۔ یہ کوئی معمولی قربانی نہ تھی، یہ فطرت کے نام ایک عظیم شہادت تھی۔ وہ درخت جن پر آج بھی ہوا سرسراتی ہے، گویا شہیدوں کے لہو کا ذکر کرتی ہے۔
اس قربانی کی یادگار کے طور پر "سَمی میری جان" گیت گایا جانے لگا۔ یہ گیت صرف ایک لوک روایت نہیں، بلکہ ایک عہد ہے — کہ درخت محض لکڑی نہیں، یہ زندگی کا سانس ہیں۔ آج بھی جب یہ گیت پنجاب یا راجستھان میں گونجتا ہے تو دلوں میں ایک تاثیر جگاتا ہے کہ محبت صرف انسانوں سے نہیں، فطرت اور سبز درختوں سے بھی کی جاتی ہے

