سوشلسٹ ممدانی جیت گیا:
آج ساری دنیا میں ایک شخص کی جیت کی بات ہو رہی ہے جو نیویارک کا نیا میئر بنا ہے، اور اس کی جیت نے ایک طرف تو ٹرمپ اور ریپبلکنز کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کیا ہے، تو دوسری طرف ہم پاکستانیوں کے لیے بھی سوچ کے دروازے کھول دیے ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، اور آج ہم نے دیکھا کہ امریکی جمہوریت نے اپنی جڑوں کو گراس روٹ لیول تک اتنا مضبوط کیا ہے کہ ٹرمپ جیسے انتہا پسند دائیں بازو کے حمایتی شخص کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ ایسے ممالک جہاں عوامی رائے کی قدر کی جاتی ہے اور "ایک آدمی، ایک ووٹ" کے حق کا احترام کیا جاتا ہے، وہاں ہم بھی وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو جمہوری ریاستیں حاصل کرتی ہیں۔
زوہران محمدی جو کہ اینٹی اسرائیل ہیں، مسلمان ہیں اور سوشلسٹ ہیں — یہ سب باتیں ہی اُنہیں ہرانے کے لیے کافی تھیں۔ امریکہ میں اینٹی صیہونی (Anti-Zionist) ہونا اور پھر میئر کے الیکشن میں اس بات پر اسرائیل اور اس کی لابیوں کے خلاف آواز اٹھانا کسی بھی سیاستدان کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سوشلسٹ ہونا، جیسا کہ ہم نے امریکی تاریخ میں دیکھا ہے، اکثر سیاست دانوں کے لیے سیاسی زندگی کے خاتمے کے مترادف ہوتا ہے۔ لیکن زوہران محمدی جو کہ ایک ملینیل بھی ہیں، اُن کی جیت ترقی یافتہ ممالک میں ایک نئے رجحان (Trend) کی بنیاد رکھے گی اور اب دیگر ممالک میں بھی ہم ملینیلز اور جنریشن زیڈ (Gen Z) کا سیاسی اثر و رسوخ بڑھتا ہوا دیکھیں گے۔
زوہران محمدی کی فتح سے بہت سے سماجی رویے اور نظریاتی پابندیاں بھی ٹوٹ گئی ہیں۔ انہیں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی ملنے کے باوجود پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے دیر تک اُن کی کھل کر حمایت نہیں کی۔ یہ بات اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ ایک سوشلسٹ نظریات رکھنے والے شخص کو اپنی ہی جماعت کی قیادت کی حمایت حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ اسے جمہوریت کا کرشمہ سمجھیں کہ انہوں نے پولر ووٹ حاصل کیے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہاں کی عوام نے وہی ٹرمپ، جسے چند سال قبل وائٹ ہاؤس بھیجنے کے لیے ووٹ دیا تھا، آج اسی ریپبلکن پارٹی کو عوامی ووٹ سے محروم کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم میں سیاسی شعور کو زندہ رکھا جائے تو عوام اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کرتی رہتی ہے، اور یہی بات انہیں متحد رکھتی ہے۔
پسِ پردہ راستوں (Backdoor Channels) سے کسی بھی منتخب نمائندے کو گھر بھیج دینا، یا ایک ہائبرڈ نظام کے سائے میں پہلے 26ویں ترمیم لانا اور پھر 27ویں ترمیم کی تیاری کرنا — یہ کسی بھی ملک کے مستقبل کے لیے سودمند نہیں۔ ایسے بند کمروں میں کی گئی ترامیم عوام کی عدالت میں جب بھی پیش ہوں گی، ناقابلِ قبول ہی رہیں گی۔
از قلم: طوبہ طاہر
